ایک بار کی بات ہے، میرے برکت کے گاؤں میں، جب ہمارے گاؤں میں ایک بڑی سی بیڑی تھی، اس میں ہزاروں چھوٹے بچے کھیلتے تھے۔ یہاں کی خوشبو، پرندوں کی چہچہاہٹ اور پیدائش کی روشنی کبھی دنیا کے بڑے شہروں میں بھی نہیں تھی۔

بچوں کی اکثریت کے ساتھ، ایک ننھا سا لڑکا بھی کھیلتا تھا، اس کا نام آدم تھا۔ وہ بھی کاموں کی خوشبو کو ہوا میں محسوس کرتا تھا، پرندوں کی گانے کو اپنے دل میں سمجھتا تھا، اور ہمیشہ یہ سوچتا رہتا تھا کہ ایک دن وہ بھی کبھی بڑا انسان بنے گا۔

آدم کے والدین کے پاس بڑی مشکلات تھیں، وہ دن رات محنت کرتے تھے تاکہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے سکیں۔ آدم کا دل ان کی محنتوں اور قربانیوں کو دیکھ کر دکھ سے بھر جاتا تھا، لیکن وہ ماضی کی بھیک میں نہیں جینا چاہتا تھا۔

ایک دن، گاؤں کا ملکہ ایک مخصوص مناسبت پر گاؤں آیا، اور اس مناسبت کے موقع پر سب نے خوشیوں کا اظہار کیا۔ آدم نے بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اس مناسبت میں شرکت کی، لیکن اس کا دل ایک انوکھا خواب دیکھ رہا تھا۔

خواب میں آدم کو دیکھنے میں ایک بڑی بڑی عمارت تھی، جس کا ایک عالمی شہر میں کوئی مقام تھا۔ اس عمارت کے سامنے ایک بڑی سی تخت تھا جس پر ایک تاج رکھا گیا تھا۔ آدم نے تخت کے قریب جانے کی کوشش کی، لیکن اچانک ایک طوطا اس کے قریب آیا اور آواز میں بولا، ‘آدم، تو بھی یہاں؟’

آدم بے تاب ہوگیا اور طوطے سے پوچھا، ‘کیا تم مجھے یہاں پہچانتے ہو؟’

طوطا مسکرا کر جواب دیا، ‘ہاں، میں تیرا دوست ہوں، تو میرے پاس آیا کیوں؟’

آدم نے اپنی خوشیوں کو کبوتروں کی طرح بکھیر دیا اور طوطے کو گلے لگالیا، ‘میں نے تمہیں کب سے تلاش کر رہا تھا، میرے برکت کے گاؤں میں پرندوں کی طرح آزادی کے لئے۔’

طوطا ہنس کر بولا، ‘آدم، تو پہلے بھی ایک پرندہ تھا اور آج بھی ہے۔’

آدم کا دل خوشی سے بھر گیا، وہ جان گیا کہ حقیقت میں آزادی انسان کے دل میں ہوتی ہے، اور وہ اپنے گاؤں کو بدلنے کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔ اب آدم نے اپنے گاؤں کے لوگوں کو ایک نئے راستے پر چلنے کی رہبری کی، اور انہوں نے اپنے برکت کے گاؤں کو ایک نئے امکانات کی طرف بڑھایا۔

یہ کہانی ہمیں یہ سیکھ دیتی ہے کہ حقیقی تبدیلی انسان کے دل میں ہوتی ہے، اور اگر اس کا عزم مضبوط ہو تو وہ کچھ بھی ممکن ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *